جو ان کو بھی مطمئن کرے، کریں ایسا کوئی بہانہ کیا

جو ان کو بھی مطمئن کرے، کریں ایسا کوئی بہانہ کیا
سو جھوٹ چھپے ہوں سچائی میں، تو حقیقت کیا فسانہ کیا
زخم کھا کر بھی ہم چپ رہے، پر اس درد دل کا کیا کریں
جو باہر سے ہی جھلکتا ہو، اس غم کو اور چھپانا کیا
اس انجان سے پھر کیوں یاروں، اپنی پہچان کرائیں ہم
جو اس کو ہی نہ یاد رہا، اس عہد کا اب دہرانا کیا
اک بے رخی ہی کافی تھی، اور مجھے کیوں ستاتے ہو
جس کی راکھ بھی اب موجود نہیں، اس دل کو اور جلانا کیا
کسی کی یاد میں صرف مرجانا، یہ کیسی نا انصافی ہے
جس کی سزا، جزا سے کم ملے، اس گناہ کا بھی کمانا کیا
یہ دھول نہیں ہے زمانے کی، تدبیر ہے غم چھپانے کی
جس قبر پر کوئی نہ آتا ہو، اس کے کتبے کا چمکانا کیا
بہت چلے ہیں اس راہ پر مگر، منزل سبھی کو ملی نہیں
جوخود کا ہی انتخاب ہو، اس انجام پر پھر پچھتانا کیا

Comments

Popular Posts