ham hi main thi na koi baat

ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تُم کو آ سکے
تم نے ہمیں بُھلا دیا، ہم نہ تمہیں بھلا سکے

تم ہی اگر نہ سُن سکے قصئہ غم، سنے گا کون
کِس کی زباں کھلے گی پِھر ہم نہ اگر سنا سکے

ہوش میں آ چُکے تھے ہم جوش میں آ چکے تھے ہم
بزم کا رنگ دیکھ کر سر نہ مگر اٹھا سکے

رونقِ بزم بن گئے لب پہ حکایتیں رہیں
دِل میں شکائتیں رہیں لب نہ مگر ہلا سکے

شوقِ وصال ہے یہاں لب پہ سوال ہے یہاں
کس کی مجال ہے یہاں ہم سے نظر مِلا سکے

ایسا ہو کوئی نامہ بر بات پہ کان دھرسکے
سُن کے یقین کرسکے، جا کے انہیں سنا سکے

عجز سے اور بڑھ گئی برہمئیِ مزاجِ دوست
اَب وہ کرے علاجِ دوست جس کی سمجھ میں آ سکے

اہلِ زباں تو ہیں بہت، کوئی نہیں ہے اہلِ دل
کون تیری طرح حفیظؔ درد کے گیِت گا سکے

حفیظ جالندھری

Comments

Popular Posts