thaka gia hai musalsal safar udasi ka

تھکا گیا ہے مسلسل سفر اداسی کا
اور اب بھی ہے میرے شانے پہ سر اداسی کا


وہ کون کیمیا گر تھا کہ جو بکھیر گیا
تیرے گلاب سے چہرے پہ زر اداسی کا


میرے وجود کے خلوت کدے میں کوئی نہ تھا
جو رکھ گیا ہے دیا طاق پر اداسی کا


میں تجھ سے کیسے کہوں یار مہربان میرے
کہ تو علاج نہیں میری ہر اداسی کا


یہ اب جو آگ کا دریا مرے وجود میں ہے
یہی تو پہلے پہل تھا شرر اداسی کا


نہ جانے آج کہاں کھو گیا ستارہِ شام
وہ میرا دوست میرا ہمسفر اداسی کا


فراز دیدہ پر آب میں نہ ڈھونڈ اسے
کہ دل کی تہہ میں کہیں ہے گہر اداسی کا

Comments

Popular Posts