آدمی کا غم ۔ حبیب جالب

 جو صدائیں سن رہا ہوں مجھے بس انہیں کا غم ہے

تمہیں شعر کی پڑی ہے مجھے آدمی کا غم ہے

جسے اپنے خون سےپالا وہ حسیں سجل اجالا
وہی قتل ہو رہا ہے میری جان اسی کا غم ہے

رخ مفلساں پے جالب ہیں ازل سے جس کے سائے
اسی بےبسی کا غم تھا اسی بےبسی کا غم ہے

جسے رات کہ چکا ہوں اسے صبح کیسے کہ دوں
یہاں پاس لفظ کس کو، یہ فقط مجھی کا غم ہے

میں ہوں شاعر زمانہ مرا اور ہے فسانہ
تمہیں فکر اپنے گھر کی مجھے ہر گلی کا غم ہے

Comments

Popular Posts